تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | یرقانی تنظیموں کےآلۂ کار اوقاف کی املاک پر ناجائز قبضوں اور ان کی تباہی کے آج مختلف جوازپیش کررہے ہیں ۔ان کے مطابق ہندوستان میں جتنی قدیم مساجد اور ابتدائی عبادت گاہیں موجود ہیں وہ اکثریتی طبقے کے افراد نے مسلمان تاجروں کے لئے بنوائی تھیں ۔یعنی ان کی تعمیر اور عبادت گاہوں کے لئے زمین کی خرید میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں ہے ۔گجرات کے ساحل پر جو مسجد بنوائی گئی وہ مقامی لوگوں نے اپنے خرچ پر مسلمانوں کے لئے تعمیر کروائی تھی ۔
اسی طرح جو مسلمان بادشاہ ہندوستان پر حملہ ور ہوئے انہوں نے سناتن دھرم کی آبائی ملکیت کو اپنی ملکیت میں تبدیل کرکے ان پر باغات،محلات ،شکار گاہیں اور عبادت گاہیں تعمیر کروائیں ۔سناتن دھر م کی ملکیت کے بڑے حصے کو انہوں نے وقف بھی کیا ۔ہمارے نام نہاد دانشوروں کا یہ قول زعفرانی فکر کا آئینہ دار ہے جسے اب تاریخ بناکر پیش کیاجارہاہے ،جبکہ وہ ’سناتن دھرم ‘ کو ہندوستان کا قدیم ترین مذہب بھی ثابت نہیں کرسکتے ،جیساکہ محققین نے بیان کیاہے۔
معاصر عہد میں اگر اس فکر کے تحت مسلمانوں کے اوقاف پر قبضہ کیاجارہاہے کہ وہ سناتن دھرم کی آبائی ملکیت ہیں ،تو پھرحیل و حجت کی کیا ضرورت ہے ؟ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا ڈھونگ کیوں؟وقف املاک کے تحفظ اور نظارت کے لئےوقف بورڈ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟اس سے بہتر تویہ ہوگاکہ اعلان کردیاجائے کہ مسلمانوں کے تمام اوقاف سناتن دھرم کے دائرۂ اختیار میں ہوں گے ۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ روز روز کے اختلافات اور تنازعات سے نجات مل جائے گی ۔
سرکار کو چاہیے کہ ہر ریاست میں وقف بورڈ تحلیل کرکے تمام وقف املاک کو اپنے قبضے لےلے۔یوں بھی وقف بورڈکا عام مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہونچتا، کیونکہ سرکار ان میں اپنے نمائندوں کو منتخب کرتی ہے اور وہ سرکار کی منشاکے مطابق کام کرتے ہیں ۔ہندوستان کی کسی بھی ریاست کا وقف بورڈ آزاد نہیں ہے ۔ان کی نگرانی میں نہ جانے کتنے اوقاف ختم کردیے گئے اور کتنے اوقاف کی املاک صرف کاغذوں میں رہ گئی ہے ۔وقف املاک کےساتھ وہی تماشا ہواجو ہندوستان میں آدی واسیوں کی زمینوں کے ساتھ ہواہے۔وقف املاک پر سرکار نے منظم لایحۂ عمل کے تحت قبضے کئے۔
خالی زمینوں کو من مانے ڈھنگ سے لیز پر دیا گیا ۔بلڈر ایگریمینٹ کئے گئے ۔کارپوریٹ گھرانوں کو زمینیں الاٹ کی گئیں ۔حد یہ ہے کہ اکثر ریاستوں میں سرکاری عمارتیں اور وزرا کےبنگلے تک وقف کی زمینوں پر قائم ہیں ۔یہی نہیں اوقاف کی زمینوں پر قبضے کے لئے سرکار خالی زمینوں پر پارک بنادیتی ہے یا پھر کوئی سرکاری دفتر قائم کردیا جاتاہے ۔لکھنؤ میں تو وقف کی زمینوں پر پولیس اسٹیشن ،بجلی گھر ،پارک ،اور دیگر سرکاری دفاتر قائم ہوچکے ہیں ۔اس کے بعد جو زمینیں سرکاری تصرف سے بچتی ہیں ان پر راتوں رات اکثریتی طبقے کی عبادت گاہیں تعمیر کردی جاتی ہیں ۔رومی دروازے سے گھنٹہ گھر تک جانے والی سڑک کے اطراف میں وقف حسین آباد کی زمین پر اکثریتی طبقے کی کئی عبادت گاہیں تعمیر ہوچکی ہیں۔اسی طرح چوک سے بڑے امام باڑےکی طرف جانے والی سڑک پر( جس پر پھولوں کا بازار واقع ہے) کوئی عبادت گاہ نہیں تھی مگراب موجود ہے ۔نالے کے آس پاس کی زمین وقف حسین آبادکی ہے ،جس پر کئی لوگوں نے ناجائز قبضے کرلئے ہیں ۔گھنٹہ گھر کے روبرو ،جواہر لال نہرو یواکیندر کے قریب وقف کی زمین کا ٹکڑا موجود ہے ،جسے ایک زمانے میں مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب مرحوم نے لڑکیوں کے لئے کالج قائم کرنے کے لئے سرکار سے مانگا تھا ،مگر اب اس زمین پر پارک بننے کی خبریں لکھنؤ کی فضا میں گردش کررہی ہیں ۔
مسلم محلوں کو پارکوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسکولوں اور کالجوں کی ضرورت ہے ۔گھنٹہ گھر سے چھتر منزل تک متعدد پارک موجود ہیں ،جو وقف کی زمینوں پر قائم کئے گئے ہیں ،اس لئے نئے پارک کی اس علاقے کوکوئی ضرورت نہیں ہے مگر اب سرکار کی من مانیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔یہ قبضے بھی اسی نفسیات کا حصہ ہیں کہ مسلمانوں نے سناتن دھر م کی آبائی ملکیت کو اپنی ملکیت قرار دیا یا وقف کردیا۔
وقف بورڈ کو اراکین یا سرکار کی منشاکے مطابق نہیں چلایا جاسکتا بلکہ واقف کی منشاکے مطابق وقف کےامور انجام پذیر ہونے چاہئیں ۔مگر اکثر جگہوں پر واقف کی منشا کو نظر انداز کردیاجاتاہے اور وقف بورڈ کےاراکین کی منشا کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں ۔لکھنؤ میں موجودحسین آباد ٹرسٹ سرکاری بدعنوانی کی ایک مثال ہے ۔یہ ٹرسٹ بہو بیگم اور نوابین اودھ کا قائم کیا ہواہے جس میں متعدد چھوٹے بڑے دیگر ٹرسٹ بھی ضم ہیں ۔حسین آباد ٹرسٹ میں نوابوں نے لاکھوں روپے جمع کرکے اس کو خود کفیل ادارہ بنایا تھا تاکہ یہ ٹرسٹ مسجدوں ،امام باڑوں ،یتیموں،بیوائوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرسکے ۔مگر آج سب کچھ درہم برہم ہوچکاہے۔یہ ٹرسٹ ضلع مجسٹریٹ کے ماتحت ہے ،اس لئے آج تک اس کے نظام میں شفافیت نہیں آسکی اور نہ کوئی حساب و کتاب موجود ہے ،کیونکہ ڈی ۔ایم کو مکمل تصرف کا حق حاصل ہے اور آج تک حسین آباد ٹرسٹ کی کمیٹی کا انتخاب عمل میں نہیں آسکا ۔ٹرسٹ کے زیر اہتمام عمارتوں کاحال ناگفتہ بہ ہے ۔کئی دروازےتو گرنے کی کگارپر ہیں ۔بڑا امام باڑہ اور آصفی مسجدکی دیواریں شکستہ ہورہی ہیں ۔سرکار نے گلوبل انویسٹر زسمٹ کے موقع پر رنگ و روغن کا کام کروایا تھامگر وہ اس قدر پائیدار تھاکہ پہلی بارش میں دھل گیا ۔رومی دروازے میں دراریں پڑ چکی ہیں ۔گذشتہ کئی ماہ سے آرکیولوجیکل ڈپارٹمنٹ رومی دروازےکی مرمت کا کام کروارہاتھا مگریہ بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔یہی حال ان دروازوں کاہے جو چھوٹے امام باڑے کی سڑک پر واقع ہیں ۔بعض دروازے تو بالکل انہدام کے قریب ہیں ۔چھوٹے امام باڑے کاعقبی حصہ خستگی کا شکار ہے مگر اس طرف نہ ٹرسٹ کے ذمہ داروں کی توجہ ہے اور نہ محکمہ آثار قدیمہ کی۔یہی حال دوسری وقف کی عمارتوں کا ہے ۔کئی مسجدیں ،امام بارگاہیں اور دروازے توگذشتہ دس پندرہ سالوں میں منہدم ہوئے اور آج ان کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔لال جی ٹنڈن روڈ پر کالی چرن کالج کےبرابر میں زمیں دوزمسجدکےگنبد آج بھی مسلمانوں کی عظمت دیرنیہ کا نوحہ پڑھ رہےہیں ۔اسی طرح لکھنؤ میں سینکڑوں ایسی مسجدیں ،امام باڑے اوروقف کی عمارتیں ہیں جو اب اپنا نشان تک کھوچکی ہیں۔
اس روداد کو سنانے کا مقصدیہ ہے کہ سرکار اور وقف املک کے محافظ دفاتر اوقاف کی تباہی میں شامل ہیں۔اس پر یہ کہ مسلمان اپنے اوقاف کی زبوں حالی کے سلسلےمیں بیدار نہیں ہیں ۔بالآخر انہیں اپنی زمینوں کےتحفظ کے لئے خود کھڑا ہونا ہوگا ورنہ یرقانی تنظیموں کی نگاہیں اوقاف کی خالی پڑیں زمینوں پر لگی ہوئی ہیں ۔کیونکہ مسلمانوں میں موجود ان کے آلۂ کار یہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ مسلمان بادشاہوں ،امرااور مخیرین نے سناتن دھرم کی املاک پر قبضہ کرکے وقف کی بنیاد رکھی تھی ۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر ملک میں فاتحین نے مفتوحہ قوموں کی املاک پرقبضہ کیا۔جس طرح ہندوستان میں آریوں نے دراوڑوں کوغلام بنایا اور ان کی جان ،مال اور ناموس کو اپنے لئے حلال سمجھا ۔لیکن ہندوستان میں مسلمانوں نے اکثریتی طبقے کےساتھ کبھی زیادتی نہیں کی ۔جہاں کہیں زیادتی اور تشدد کےآثار موجود ہیں اس کا تعلق شاہی نظام سے ہے مذہب سے نہیں ۔کیونکہ بادشاہت کا مذہب اقتدار ہے خواہ وہ مسلمان بادشاہ رہے ہوں یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔ورنہ تاریخ میں محفوظ ہے کہ جب تیمور لنگ نے دہلی پر حملہ کیااس وقت دہلی کےمقامی مسلمانوں نے ہنود کے ساتھ مل کر مزاحمت کی ،جس کے نتیجے میں تیمور نےاکثریتی طبقے کےساتھ مسلمانوں کو بھی مسجدمیں تہہ تیغ کروادیا ۔اسی طرز پر جور جیا میں تیمور اور تاتاری فوجوں نے مسلمانوں کو لوٹنے میں اپنی طاقت صرف کی تیمور کے خلاف مولانا احمد تھانیسری کے بیٹے نے مقامی ہنود کے ساتھ مزاحمت کی۔تیمور کے حملے کے وقت ہندوئوں اور مسلمانوں کی متعدد باہم مزاحمتوں کی روداد تاریخ میں موجود ہے ،جسے آج بیان نہیں کیا جاتا۔یہی وجہ ہےکہ تیمور نے کسی ہندوستانی مسلمان کو اپنا نائب مقرر نہیں کیا کیونکہ کسی مسلمان امیر نے جنگ میں اس کا ساتھ نہیں دیا تھا ،اس لئے جب وہ واپس پلٹا تو خضر خاں کومقامی لوگوں پر ترجیح دی ،جو تیمور کے ڈرسے میوات چلا گیا تھا ۔
المختصر یہ کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو باہم زندگی بسر کرتے تھے ۔کیونکہ مسلمان حملہ ور کی حیثیت سے ہندوستان میں داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے تھے ۔بنوامیہ اور بنوعباس کے عہد میں سادات سرکاری مظالم سے تنگ آکر ہندوستان کا رخ کرنے لگے تھے ۔آج ہندوستان میں سادات کی اکثریت اسی عہد کی یادگار ہے ۔رہی مسلمان بادشاہوں کی بات تو جس طرح ہندوراجائوں کا دھرم اقتدار تھا اسی طرح مسلمان بادشاہوں کو بھی مذہب سے زیادہ شغف نہیں تھا بلکہ وہ بھی اپنی طاقت میں اضافے اور اقتدار کی توسیع کے لئے کوشاں تھے ،لہذا آج یرقانی تنظیموں کے آلۂ کار حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش نہ کریں ،بلکہ لوگوں کو تاریخی حقیقت سے آگاہ کریں ،تاکہ ہندوستان سے مذہبی منافرت کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔